aik Sawab alahazrat se ,jawab Fatawa Rizwiya se must read

مسئلہ ۲۷: از اٹاوہ مرسلہ مولوی وصی علی صاحب نائب ناظر کلکٹر ی اٹاوہ ۲ ذیقعدہ ۱۳۱۲ھماقولکم رحمکم اﷲ تعالٰی فی جواب ھذا السوال (اس سوال کے جواب میں آپ (رحمکم اللہ تعالٰی) کا کیا ارشاد گرامی ہے۔ ت) : پائجامے دو طرح کے فی زماننا اکثر مروج ومستعمل ہیں : اول غرارہ دار فراخ پائچہ جس کااستعمال بیشتر بزرگان دین کرتے ہیں اور اکثر علماء وصلحاء واولیائے امت کے لباس میں داخل ہے۔
دوم پائچہ عوام مومنین اور بعض خواص علماء خصوصا پچھان کی طرف کے باشندے استعمال کرتے ہیں ان دونوں میں سے کون باعتبار شرح شریف کے افضل واستر ہے اور کس کے استعمال کی بابت شرع سے صریح رخصت ہوسکتی ہے؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجرپاؤ۔ ت)

الجواب : اصل سنت مستمرہ فعلیہ حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلیہم اجمعین ازار یعنی تہبند ہے۔ اگر چہ ایک حدیث میں مروی ہواہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضورپر نور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ سے عرض کیا۔ حضورپاجامہ پہنتے ہیں۔ فرمایا:اجل فی السفر والحضر وفی اللیل والنھار فانی امرت بالتر فلم اجد شیئا استر منہ۔ رواہ ابویعلی ۱؎ وابن حبان فی الضعفاء والطبرانی فی الاوسط والدار قطنی فی الافراد والعقیلی فی الضعفاء عنہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ہاں سسفر وحضر میں شب و روز پہنتاہوں اس لئے کہ مجھے ستر کا حکم ہوا ہے میں نے اس سے زیادہ ساتر کسی شیئ کو نہ پایا (اس کو ابویعلی اور ابن حبان نے کتاب الضعفاء میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے اور امام طبرانی نے الاوسط میں اورامام دارقطنی نے الافرادمیں اور امام عقیلی نے کتاب الضعفاء میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

 (۱؎ مجمع الزوائد بحوالہ ابویعلٰی والمعجم الاوسط للطبرانی     کتاب اللباس باب فی السراویل      دارالکتب العربی بیروت  ۵ /۱۲۲)

مگریہ حدیث بشدت ضعیف ہے۔حتی ان اباالفرج اورد ہ علی عادتہ ف الموضوعات والصواب کما بینہ الامام السیوطی، واقتصر علیہ الحافظ ابن حجر وغیرہ انہ ضعیف فقط۔ تفرد بہ یوسف بن زیاد الواسطی واہ۔یہاں تک کہ حافظ ابوالفرج ابن جوزی نے اپنی عادت کے مطابق اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔ لیکن ٹھیک بات جیسا کہ امام سیوطی نے بیان فرمائی اور حافظ ابن حجر وغیرہ نے اسی پر اکتفاء کیا وہ یہ ہے کہ وہ صرف ضعیف ہے چنانچہ یوسف بن زیاد واسطی اسے روایت کرنے میں متفرد (یعنی تنہا) ہے اور وہ کمزور ہے۔ (ت)ہاں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اسے خریدنا بسند صحیح ثابت ہے۔

رواہ الائمۃ احمد والاربعۃ وابن حبان وصححہ عن سوید بن قیس واحمد والنسائی فی القصۃ اخرٰی عن مالک بن عمیرۃ الاسدی رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔ائمہ کرام مثلاامام احمد ودیگر چار ائمہ اور ابن حبان نے اس کو روایت کیا ہے اورسوید بن قیس کے حوالہ سے اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔ امام احمد اور امام نسائی نے ایک دوسرے قصے میں حضرت مالک بن عمیرہ اسدی کے حوالے سے روایت کی۔ رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ (ت)

اور ظاہر ہے یہی ہے کہ خریدنا پہننے ہی کے لئے ہوگا۔بہر حال اس میں شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم زمانہ اقدس میں باذن اقدس پاجامہ پہنتےکما فی الہدٰی والمواھب وشرح سفر السعادۃ وغیرھا (جیسا کہ الہدٰی، المواہب اور شرح سفر السعادۃ وغیرہ میں مذکورہے۔ ت) امیر المومنین عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ روز شہادت پاجامہ پہنے ہوئے تھےکما فی تہذیب الامام النووی وغیرہ (جیسا کہ تہذیب الاسماء امام نووی وغیرہ میں مذکور ہے۔ ت)

ایک حدیث میں ہے کہ سید ناموسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام روز مکالمہ طور اون کا پاجامہ پہنے ہوئے تھے۔رواہ الترمذی واستقربہ والحاکم وصححہ عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان علی موسٰی یوم کلمہ ربہ کساء صرف وکمہ صوف وجبۃ صوف وسواویل صوف وکانت نعلاہ من جلد حمار میت ۱؎۔اس کو امام ترمذی نے روایت کرتے ہوئے برقرار رکھا اور حاکم نے روایت کرکے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے اس کی تضحیح فرمائی۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام سے اللہ تعالٰی نے کلام فرمایا تو اس دن وہ اون کی بنی ہوئی چادر اونی جبہ اونی ٹوپی اوراونی شلوار میں ملبوس تھے البتہ ان کے جوتے مردہ گدھے کی کھال کے بنے ہوئے تھے۔ (ت)

(۱؎ جامع الترمذی  کتاب اللباس باب ماجاء فی البص الصوف  امین کمپنی کراچی ۱ /۰۷۔۲۰۶)

دوسری حدیث میں ہے کہ سب میں پہلے جس نے پاجامہ پہناابراھیم خلیل اللہ صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ ہیں،رواہ ابونعیم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اول من لبس السراویل ابراھیم الخلیل۔ ۱؎ابو نعیم نے اس کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کافرمان وارشاد ہے کہ سب سے پہلے جس نے شلوار پہنی وہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام تھے۔ (ت)

 (۱؎ تہذیب تاریخ ان عساکر    ذکر ماکان من امرابراھیم علیہ السلام بعد ذٰلک     داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۱۴۹)
(الفردوس بما ثور الخطاب     حدیث ۴۳    دارالکتب العلمیہ بیروت  ۱ /۲۸)

تیسری حدیث میں ہے حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی امت سے پاجامہ پہننے والی عورتوں کے لئے دعا مغفرت کی اور مردوں کو تاکید فرمائی کہ خود بھی پہنیں اور اپنی عورتوں کو بھی پہنائیں کہ اس میں ستر زیادہ ہے۔رواہ الترمذی والعقیلی والضعفاء وابن عدی والدیلمی عن امیر المومنین علی کرم اﷲ وجہہ بلفظ اللھم اغفر للمتسرولات من امتی یایھا الناس اتخذوا السراویلات فانھا من استر ثبابکم وحصنوا بھا نساء کم اذاخرجن۲؎ وفی الحدیث قصۃ وفی اسانیدہ مقال رضبی یتقوی بتعدد طرقہ خلافہ الصنیع ابی الفرج۔

ترمذی نے اس کو روایت کیااور عقیلی نے کتاب الضعفاء میں ابن عدی اورویلمی نے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس لفظ کے ساتھ روایت کی : اے اللہ! میری امت سے پاجامہ پہننے والی عورتوں کو بخشش فرما۔ اے لوگو، پاجامہ (یعنی شلوار) پہنا کرو کیونکہ یہ تمھاری لباس ہیں سب سے زیادہ ستر پوش لباس ہے شلوار سے اپنی عورتوں کجو محفوظ کروجب وہ باہر نکلیں۔ اور حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے اس کی سندوں میں اشکال پایا جاتا ہے۔ بسا اوقات متعدد سندوں اور طرق کی وجہ سے حدیث قوی ہوجاتی ہے لیکن اس میں علامہ ابوالفرج ابن جوزی کا اپنی کارکردگی کی وجہ سے اختلاف ہے۔ (ت)

 (۲؎ کنزالعمال بحوالہ البزار     حدیث ۴۱۸۳۸    مؤسسۃ الرسالہ بیروت   ۱۵ /۴۶۳)
(الکامل لابن عدی     ترجمہ ابراہیم بن زکریا العلم الخ         دارالکتب العلمیہ بیروت        ۱  /۲۵۵)
(الموضوعات لابن جوزی     کتاب اللباس    دارالفکر بیروت  ۳ /۴۶)

بالجملہ پاجامہ پہننا بلا شبہہ مستحب بلکہ سنت ہے،ان لم یکن فعلا فقولا والافلا اقل من الستنان تقریر اکماعلمت ۔اگر فعلی سنت نہ بھی ہو تو قولی سنت ضرور ہے اور اگر یہ بھی نہ ہو کم از کم آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تقریری سنت تو لامحالہ ہے۔ جیساکہ تم نے جان بھی لیا۔ (ت)

لاجرم فتاوٰی عالمگیریہ میں فرمایا :لیس السراویل سنۃ وھو من استر الثیاب للرجال والنساء کذا فی الغرائب ۱؎۔پاجامہ (شلوار) سنت ہے اور یہ مردوں عورتوں دونوں اصناف کے لئے زیادہ سترپوش ہے یونہی الغرائب میں مذکور ہے۔ (ت)

 (۱؎فتاوی ہندیہ     کتاب الکراھیۃ الباب التاسع     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۳۳)

اور روایت میں کوئی تخصیص پائچہ فراخ وتنگ کی نظر سے نہ گزری، یہ عادات قوم وبلد پر ہے مگر فراخ کے یہ معنی کہ عرض کے پائچے نہ غرارے دار جس میں کلیاں ڈال کر گھیر بڑھا یا جاتاہے۔ یہ مردوں کے لئے بلاشبہ ناجائز ہے کہ ان بلاد میں کلیوں دار پائچےخاص لباس عورات  ہیں اور عورتوں سے تشبیہ حرام  مرد اگر پہنتے ہیں تو وہی زنانے یا نقال یا بدوضع فساق، ان لوگوں سے بھی مشابہت ممنوع،کما نص علیہ فی الخانیۃ وغیرھما من معتمدات المذھب (جیساکہ فتاوٰی قاضیخاں وغیرہ مذھب کی معتبر کتابوں میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ ت) یونہی طول میں نہ ٹخنوں سے زائد ہوں کہ لٹکتے ہوئے پائچے اگر براہ تکبر ہوں تو حرام وگناہ کبیرہ ورنہ مردوں کے لئے مکروہ وخلاف اولٰی ۔

ہندیہ میں ہے  :اسبال الرجل ازارہ اسفل من الکعبین ان لم یکن للخیلاء ففیہ کراھۃ تنزیہ کذا فی الغرائب ۲؎۔مرد کا اپنے تہبند کو ٹخنوں کے نیچے تک لٹکانا اگر بربنائے تکبر نہ ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ اس طرح الغرائب میں مذکورہے۔ (ت)

(۲؎فتاوی ہندیہ     کتاب الکراھیۃ الباب التاسع     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۳۳)

اسی میں ہے :یکرہ للرجل لبس السراویل المخرفجۃ و ھی التی تقع علی ظہر القدمین کذا فی الفتاوی العتابیۃ ۳؎۔مردوں کے لئے ایسے پاجاموں کااستعمال مکروہ ہے جو المخرفجہ یعنی پاؤں کی پشت سے نیچے تک ہوں، یونہی فتاوٰی عتابیہ میں بھی مذکور ہے۔ (ت)

 (۳؎ فتاوی ہندیہ   کتاب الکراھیۃ الباب التاسع  نورانی کتب خانہ پشاور  ۵ /۳۳۳)

گھنٹوں کے قریب ہو جیساکہ آج کل جہال وہابیہ نے اختراع کیا ہے کہ فراخ پائچے جب اتنے چھوٹے ہوں گے توبیٹھنے لیٹنے میں ران کا کوئی حصہ کھل جانا مظنوں بلکہ مشاہد ہے۔ شرح مطہر کی عادت کریمہ ہے کہ ایسی جگہ جب ایک مقدار کو فرض فرماتی ہے اس کی تکمیل وتوثیق کے لئے ایک حدمعتدل تک اس سے زیادت سنت بتاتی ہے عورتوں کا سارا پاؤں عورت تھا تو انھیں ایک بالشت ازار یاپائچے لٹکانے کا حکم عزیمت اوردو بالشت تک رخصت ہوئی کہ قدم ہی تک رکھتیں تو حرکات میں بعض حصہ ساق یاکعب کھل جاتا۔

روی النسائی وابوداؤد والترمذی وابن ماجۃ عن ام المؤمنین ام سلمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا قالت سئل رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کم تجر المرأۃ من ذیلھا قال شبرا قالت اذا ینکشف عنہا قال فزراع لایزید علیہ ۱؎۔

نسائی، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ عورت اپنے دامن کو کتنی مقدا ر تک گھسیٹ سکتی ہے۔ آپ نے ارشادفرمایا کہ ایک بالشت تک، عرض کی گئی کہ پھر تو اس کا پاؤں کھل جائے گا ،، پھر آپ نے فرمایا کہ کہ پھر ایک ہاتھ تک، اس سے زائد نہ ہو۔ (ت)

 (۱؎ جامع الترمذی     ابواب اللباس  ۲ /۲۰۶     وسنن النسائی کتاب الرینۃ ذیول النساء  ۲ /۲۹۸)
(سنن ابن ماجہ   کتاب اللباس باب ذیل المرأۃ کم یکون      ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۲۶۴)
(سنن ابی داؤد   کتاب اللباس باب فی الذیل     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۲۱۲)

یوہیں مردکاسترعورت کے گھٹنے کے نیچے تک ہے تو فراخ پائچہ جب وہیں تک ہوگا حرکات میں کوئی حصہ زانوں یا ران منکشف ہوجائے گا لہذا نیم ساق تک عزیمت اور کعبین تک رخصت ہوئی کہ تقریبا وہی ایک اور دو بالشت کا حساب ہے

فی المواھب وشرحہ للعلامۃ الزرقانی حاصل ماذکر فی ذٰلک الاحادیث ان للرجال حالین حال استجاب وھو ان یقتصر بالازار وغیرہ علی نصف الساق وحال جواز وھو الی الکعبین وکذٰلک النساء حالان حال استحباب وھو مایزید علی ماھو زائد للرجال بقدر ذراع ۲؎ الخ۔

مواہب اللدنیہ اور اس کی شرح جو علامہ زرقانی نے لکھی میں مذکو رہے کہ جو کچھ حدیثوں میں اس سلسلے میں ذکر کیاگیا اس کا خلاصہ اور حاصل یہ ہے کہ مردوں کے لئے دو حالتیں ہیں ایک حالت استحباب ہے اور وہ یہ ہے کہ ازار وغیرہ (تہبند) میں نصف پنڈلی تک اکتفا کرے دوسری حالت جواز ہے اور وہ یہ ہے کہ ٹخنوں تک ہو، اور یونہی عورتوں کے لئے بھی د وحالتیں ہیں ایک حالت جواز ہے اور وہ یہ ہے کہ جتنی مقدار مردوں کے ہاں زائد ہے اس بمقدار ایک ہاتھ اضافہ کرے۔ الخ (ت)

 (۲؎ المواھب اللدنیۃ  النوع الثانی فی اللباس با ب الخلاصۃ فی طول الازار     المکتب الاسلامی بیروت    ۲ /۴۳۱)
(شرح الزرقانی علی المواھب   النوع الثانی فی اللباس با ب الخلاصۃ فی طول الازار   دارالمعرفۃ بیروت    ۵ /۹)

یونہی تنگ پائچے بھی نہ چوڑی دار ہوں نہ ٹخنوں سے نیچے، نہ خوب چست بدن سے سلے۔ کہ یہ سب وضع فساق ہے۔ اور ساتر عورت کا ایسا چست ہونا کہ عضو کا پورا انداز بتائے۔ یہ بھی ایک طرح کی بے ستری ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو پیشگوئی فرمائی کہ نساء کا سیات عاریات ہوں گی کپڑے پہننے ننگیاں، اس کی وجوہ تفسیر سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کپڑے ایسے تنگ چست ہوں گے کہ بدن کی گولائی فربہی انداز اوپر سے بتائیں گے جیسے بعض لکھنؤ والیوں کی تنگ شلواریں چست کرتیاں۔

ردالمحتارمیں ہے :فی الذخیرۃ وغیرھا ان کان علی المرا،ۃ ثیاب فلا باس ان یتامل جسدھا اذا لم تکن ثیابھا ملتزقۃ بھا بحیث نصف ماتحتہا وفی التتبیین قالوا ولا باس بالتأمل فی جسدھا وعلیہا ثیاب مالم یکن ثوب یبین حجمھا فلا ینظر الیہ حنیئذ لقولہ علیہ الصلٰوۃ واسلام من تامل خلف امرأۃ ورأی ثیابھا حتی تبین لہ حجم عظامھا لم یرح رائحۃ الجنۃ ولانہ متی کان یصف یکون ناظرا الی اعضائھا ۱؎ اھ ملخصا۔

ذخیرہ وغیرہ میں ہے کہ اگر عورت نے لباس پہن رکھا ہو تو اس کے جسم کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ لباس اس قدر تنگ اور چست نہ ہو کہ سب کچھ عیاں ہونے لگے۔ التبیین میں ہے کہ ائمہ کرام نے فرمایا جب عورت لباس پہنے ہو تو اس کی طرف دیکھنے میں کچھ حرج نہیں بشرطیکہ لباس ایسا تنگ اور چست نہ ہوجواس کے حجم کو ظاہر کرنے لگے (اگرایسی صورت حال ہو توپھر اس طرف نہ دیکھا جائے۔ مترجم) حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشادگرامی کی وجہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ جس کسی نے عورت کو پیچھے سے دیکھا اوراس کے لباس پر نظر پڑی یہاں تک کہ اس کی ہڈیوں کا حجم واضح اور ظاہر ہوگیا تو ایسا شخص (جو غیر محرم کو بغور دیکھ کر لطف اندوز ہونے والا ہے) جنت کی خوشبو تک نہ پائیگا اور اس لئے کہ لباس سے انداز قدوقامت ظاہر ہو تو اس لباس کو دیکھنا مخفی اعضاء کو دیکھنے کے مترادف ہے۔ اھ ملخصا (ت)

 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الحظروالاباحۃ     فصل فی النظروالمس     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۳۴)

نہ بہت اونچے گھنٹوں کے قریب ہوں کہ تنگ پائچوں میں اگر چہ احتمال کشف نہیں مگر پاؤں کے لباس میں جو حد مسنون ہے اس سے تجاوز یہ افراط ہوا،

شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی رسالہ آداب اللباس میں فرماتے ہیں :ہمبرین قیاس سراویل کہ درعجم متعارفست وآں راشلواری گویند بمقدار ازاں آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باشد واگرزیر شتالنگ باشد یا دوسہ چین واقع شود بدعت وگناہ است ۱؎۔اس پر ''سراویل'' کو قیاس کرنا چاہئے کہ جو دیار عجم میں مشہور ہے جس کو شلوار کہتے ہیں پس یہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ازار مبارک کی مقدار کے مطابق ہو لیکن اگر ٹخنوں سے نیچے ہو یا دو تین شکن نیچے واقع ہو جائے تو بدعت اور گناہ ہے۔ (ت)

 (۱؎ آداب اللباس)

یہ افراد بدعت وہابیہ ہند ہے تو ان سے تشبیہ مکروہ ہے۔ غرض ڈھیلے پائچے جب ان قباحتوں اور تنگ ان شناعتوں سے پاک ہوں تو دونوں شرعا مرخص وپسند اور ادائے مستحب میں کافی وبسند ہیں ہاں غالب عادات علماء واولیاء میں وہی عرض کے پائچے دیکھے گئے اور انھیں کو اصل سنت فعلیہ یعنی تہبند سے زیادہ مشابہت ، کما لایخفی (جیسا کہ مخفی نہیں۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔

Comments

Popular posts from this blog

أنيس الساري في تخريج وتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحافظ ابن