Posts

Showing posts from March, 2013

رسول اللہ ﷺ کا لباس مبارک کیسا تھا اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا جواب

مسئلہ ۲۹ و ۳۰:     ۲۱ شعبان ۱۳۳۳ھ (۱) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا کرتہ شریف کتنا نیچا تھا۔ اور گریبان مبارک سینہ اقدس پر تھا یا دائیں بائیں۔ اور چاک مبارک کھلی تھی یا یادوختہ،اور بٹن لگے تھے یا گھنڈی۔ اور کون سی رنگت کا مرغوب تھا؟ (۲) عمام شریف کَے (کتنے)گز کا لانبا(لمبا)تھا اور وہ گز کتنا لانبا تھا؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر وثواب پاؤ۔ ت) الجواب (۱)قمیص مبارک نیم ساق تک تھا۔ مواہب شریف میں ہے:کان ذیل قمیصہ وردانہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الی انصاف الساقین ۱؎۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قمیص مبار کا دامن اور چادر مبارک یعنی تہبند یہ دونوں آدھی پنڈلیوں تک ہواکرتے تھے۔ (ت) (۱؎ المواہب اللدینہ     المقصد الثالث النوع الثانی         مکتب اسلامی بیروت    ۲ /۴۲۸) حاکم نے بتصحیح اورابوالشیخ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی ہے :ـان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لبس قمیصا وکان فوق الکعبین ۲؎۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک ایسا کرتہ زیب تن فرمایا جو ٹخنوں سے اوپر تک زرالمبا تھا (ت)۔ (۲؎ المستدرک لل

کیا ریشم کے کپڑے پہننا مرد کے لیے جائز ہے اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا جواب

مسئلہ ۲۶ : از کلکتہ دھرم تلہ نمبر ۶ مرسلہ جناب مرزا غلام قادر بیگ ۱۲ رمضان المبارک ۱۳۱۱ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ریشمی کپڑا مرد کو پہننا جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ اجر پاؤ۔ ت) الجواب:  نہ بلکہ حرام ہے۔ حدیث میں اس پرسخت وعیدیں وارد ہیں۔  رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : لاتلبسوا الحریر فانہ من لیسہ فی الدنیا لم یلبسہ فی الاٰخرۃ، رواہ الشیخان ۱؎ عن الامیر المومنین عمر والنسائی وابن حبان والحاکم وصححہ عن ابی سعید الخدری والحاکم عن ابی ھریرۃ و ابن حبان عن عقبۃ بن عامر رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔ ریشم نہ پہنو کہ جو اسے دنیا میں پہنے گا آخر میں نہ پہنے گا۔ (اس کو بخاری ومسلم نے امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے، نسائی ، ابن حبان اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ہے اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ اور ابن حبان نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی۔ (ت)  (۱؎ صحیح البخاری   کتاب اللباس باب لبس الحریر     قدیمی ک

کھانے کھلانے کے متعلق ایک بخاری شریف کی حدیث مبارکہ اور اس کی شرح

 بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد اللہ رب العالمین والصلوہ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین امابعد !   حدّثنا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قالَ حدّثنا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ عَنْ أبِي الخَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْروٍ رَضِي الله عَنْهُمَا أنّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أيُّ الإِسْلاَمِ خيْرٌ قالَ تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ علىَ مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ . اخرجہ البخاری فی باب اطعام الطعام من الاسلام  حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا یارسول اللہ ﷺ کون سے اسلام کا عمل سب سے بہتر ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم لوگوں کو کھانا کھلاءو اور تم ہر ایک کو سلام کرو جسے جانتے ہو اور جسے نہیں جانتے  امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے باب اطعام الطعام من الاسلام (یعنی کھانا کھلانا اسلام میں سے ہے ) میں نقل کیا ) اسکی شرح میں علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں   أَن فِيهِ حثاً على إطْعَام الطَّعَام الَّذِي هُوَ أَمارَة الْجُود والسخاء وَمَكَارِم الْأَخْلَاق، وَفِيه نفع للمحتاجين وسد الْجُوع الّ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انشاء اللہ ٓآج سے ہم ذیادہ تر مواد اردو زبان ہی میں دیں گے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ آسانی سے آپ کو مکمل بات سمجھا سکیں ،