رسول اللہ ﷺ کا لباس مبارک کیسا تھا اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا جواب

مسئلہ ۲۹ و ۳۰:     ۲۱ شعبان ۱۳۳۳ھ
(۱) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا کرتہ شریف کتنا نیچا تھا۔ اور گریبان مبارک سینہ اقدس پر تھا یا دائیں بائیں۔ اور چاک مبارک کھلی تھی یا یادوختہ،اور بٹن لگے تھے یا گھنڈی۔ اور کون سی رنگت کا مرغوب تھا؟
(۲) عمام شریف کَے (کتنے)گز کا لانبا(لمبا)تھا اور وہ گز کتنا لانبا تھا؟ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر وثواب پاؤ۔ ت)

الجواب
(۱)قمیص مبارک نیم ساق تک تھا۔
مواہب شریف میں ہے:کان ذیل قمیصہ وردانہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الی انصاف الساقین ۱؎۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قمیص مبار کا دامن اور چادر مبارک یعنی تہبند یہ دونوں آدھی پنڈلیوں تک ہواکرتے تھے۔ (ت)

(۱؎ المواہب اللدینہ     المقصد الثالث النوع الثانی         مکتب اسلامی بیروت    ۲ /۴۲۸)

حاکم نے بتصحیح اورابوالشیخ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی ہے :ـان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لبس قمیصا وکان فوق الکعبین ۲؎۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک ایسا کرتہ زیب تن فرمایا جو ٹخنوں سے اوپر تک زرالمبا تھا (ت)۔

(۲؎ المستدرک للحاکم     کتاب اللباس         دارالفکر بیروت    ۴ /۱۹۵)

اور کم طول کابھی وارد ہے بیہقی نے شعب الایمان میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی :کان لہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قمیص من قطنٍ قصیر الطول قصیرا لکم ۳؂۔رسول  اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ایک ایسا سوتی کرتہ تھا جس کا طول کم اور آستین مختصر تھی۔ (ت)

 (۳؎شعب الایمان     حدیث ۶۱۶۸     دارالکتب العلمیۃ بیروت    ۵ /۱۵۴)

گریبان مبارک سینہ اقدس پر تھا۔  اشعۃ اللمعات میں ہے :جیب قمیص آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم برسینہ مبارک وے بود چنانکہ احادیث بیسار برآں دلالت دارد وعلمائے حدیث تحقیق ایں نمودہ اند ۴؎۔حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قمیص مبارک کا گریبان آپ کے سینہ مبارک پر تھا۔ چنانچہ بہت سی احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں اور محدثین حضرات نے اس کی تحقیق کی ہے۔ (ت)

 (۴؎ اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ کتاب اللباس الفصل الثانی     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۳ /۵۴۴)

اسی میں ہے :تحقیق آنست کہ گریبان پیرا ہن نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم برسینہ بود ۱؎تحقیق یہ ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مبارک کرتے کا گریبان آپ کے سینہ مبارک پر تھا۔ (ت)

 (۱؂اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ     کتاب اللباس الفصل الثانی     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۳ /۵۴۴)

دامن کے چاک کھلے ہونا ثابت ہے کہ ان پر ریشمی کپڑے کی گوٹ تھی اور گوٹ کھلے ہوئے چاکوں پر لگاتے ہیں۔ صحیح مسلم وسنن ابی داؤد میں اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے :انھا اخرجت جبۃ طیالسۃ کسروانیۃ لھا لبنۃ دیباج وفرجیھا مکفوفین بالدیباج ۲؎۔سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضور علیہ الصلٰوۃ ولسلام کا ایک طیاسی کسروانی جبہ (لوگوں کو دکھانے کے لئے) باہر نکالا جس کے گریبان پر ریشمی کپڑے کی گوٹ لگی ہوئی تھی اور اس کی دونوں اطراف ریشم گھری ہوئی تھیں۔ (ت)

(۲؎ صحیح مسلم    کتاب اللباس   ۲ /۱۹۰    وسنن ابی داؤد     کتا ب اللباس     ۲ /۲۰۵)

اس زمانہ میں گھنڈی تکمے ہوتے جن کو زر وعروہ کہتے بٹن ثابت نہیں ۔ نہ ان میں کوئی حرج ہے۔ رنگ سبز وسرخ بھی ثابت ہے۔ اور محبوب تر سفید۔

حدیث میں ہے :البسوالثیاب البیض فانھا اطھر واطیب وکفنوا فیھا موتاکم۔ رواہ احمد ۳؎ والاربعۃ الاعن سمرۃ بن جندب رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔سفید کپڑے پہنو کہ وہ زیادہ پاکیزہ اور خوب ہیں۔ اور اپنے اموات کو سفید کفن دو۔ (اما م احمد اور دیگر ائمہ اربعہ (ترمذی ، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) نے حضرت سمرہ بن جند ب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کو روایت کیا ہے۔ ت)

 (۳؎ مسند امام احمد بن حنبل     حدیث سمرہ بن جندب         المکتب الاسلامی بیروت        ۵ /۱۷)

 (۲) عمامہ اقدس کے طول میں کچھ ثابت نہیں۔ امام ابن الحاج مکی سات ہاتھ یا اس کے قریب کہتاہے۔ اور حفظ فقیر میں کلمات علماء سے ہے کہ کم از کم پانچ ہاتھ ہو اور زیادہ سے زیادہ بارہ ہاتھ۔ اور شیخ عبدالحق کے رسالہ لباس میں اکتیس ہاتھ تک لکھا ہے۔ اور ہے یہ کہ یہ امر عادت پر ہے جہاں علماء وعوام کی جیسی عادت ہو اور اس میں کوئی محذور شرعی نہ ہو اس قدر اختیار کریں۔فقد نص العلماء ان الخروج عن العادۃ شہرۃ ومکروہ ۴؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔اہل علم نے تصریح کی ہے کہ معاشرے کی عادت سے باہر ہونا باعث شہرت اور مکروہ ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

 (۴؎ الحدیقہ الندیۃ شرح الطریقہ المحمدیہ الصنف التاسع         نوریہ رضویہ سکھر        ۲ /۵۸۲)

Comments

Popular posts from this blog

أنيس الساري في تخريج وتحقيق الأحاديث التي ذكرها الحافظ ابن